جانا دل کا شہر افسوس کا ہے
تیرا میرا سارا سفر افسوس کا ہے
کس چاہت سے زہر تمنا مانگا تھا
اور اب ہاتھوں میں ساغر افسوس کا ہے
اک دھلیز پہ جا کر دل خوش ہوتا تھا
اب تو شہر میں ہر اک در افسوس کا ہے
ہم نے عشق گناہ سے برتر جانا تھا
اور دل پر پہلا پتھر افسوس کا ہے
دیکھو اس چاہت کے پیڑ کی شاخوں پر
پھول اداسی کا ہے، ثمر افسوس کا ہے
کوِِئ پچھتاوا سا پچھتاوا ہے فراز
دکھ کا نہیں افسوس، افسوس کا ہے
0 comments: